اردو کے چند ہائیکو
دروازه کھلا رکھنا
شاید میری تحریر ہوا کے جھونکنے سے
تمھارے گھر میں داخل ہونا چاہے
بھیڑ میں شامل لوگ سب حیران
بھول چکے ہیں
راستہ اپنے گھر کا
بازار میں سبزی کی دوکان پر
بک رہا ہے
سستا گھٹیا درد
ضخیم کتابوں میں
دبے ہوےسوکھے پھول
اب اپنی خوشبو بھلا بیٹھے ہیں
پیغمبر ہمیں راستہ دکھاکر
واپس چلاجاتا ہے غار میں
عبادت کیلیے
ساری رات خاموش آسمان میں
تارے ایک دوسرے کو دیکھ کر
مسکراتے ہیں
کبھی نہ آنے والے کا انتظار کرنا
اور کبھی نہ ملنے والی شے کا شوق رکھنا
اب تو یہ عادتیں چھوڑدو
سڑک پر چلتی لڑکیاں
ہنس کر باتیں کرتی ہیں
ایک غیر معیاری شاعر کا
مذاق اڑاتی ہیں
موزے کے سوراخ میں سے
انگوٹھا منہ نکالکر
کچھ کہنا چاہتا ہے
صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے
بارش شاید اب نہ آیے
انتظار کا کوئی اور بہانہ ڈھونڈیں
رات میں کھڑکی کھلی رکھنا
سبز ہوا کا جھونکہ
شاید تمہیں پاگل کردے
کیچڑ میں پڑے پڑے
چاقو کی دھار کند ہوتی جارہی ہے
ورنہ اسنے کیا کیا نہیں کاٹا
چلو اسکا پھل بدل دیتے ہیں
تعارف دیتے وقت لڑکی نے
اپنا ہاتھ آگے بڑھایا
مگر مسکراہٹ نقلی تھی
صبح اور شام میں فرق کرنا
مشکل ہوگیا ہے
آنکھوں کو کب تک
دھوکا دوں
تباہی کے دروازے پر
ہائیکو آکر رک گیا
جیسے اسکا لکھنے والا
سونامی میں ڈوب گیا ہو
جلتے گوشت کی بدبو میں
کبھی کبھی
تازہ پھولوں کی خشبو بھی سنگھائی دی
ضمیر کے بندی
اپنی زندان سے باہر نکل رہے ہیں
انکا کیا بھروسہ
کنویں کے مینڈک تک پھنچنے کے لیے
سرنگ کھودی جارہی ہے
ٹی وی کیمرہ ٹیمیں باہر
تیار کھڑی ہیں
سڑک پر بھوکے بچوں کی قطار ہے
بنٹتا ہوا کھانا بٹورنے کیلیے
ہماری مہنگی کار کا آگے بڑھنا مشکل ہے
سردی اور گرمی کے درمیان کا موسم
پچلھے برس کی گرمیوں کے جیسا ہے
اور اگلے سال کی سردیوں جیسا
تصویر اور اصل میں کیا فرق ہے
اصل کچھ کم قابل یقین ہے
تصویر یقین سے بھی ماورا ہے
کبھی ہم بھی قلم کے مزدور تھے
شکر ہے اب آزاد ہیں
کمپیوٹر کے غلام ہیں
سفید جھوٹ کیا ہوتا ہے
کیا وه گدلے یا کالےجھوٹ سے
زیاده بھاری ہوتا ہے
پرانے وقتوں میں ماحول زیاده صاف تھا
اب گندگی پر چمکتا پالش کیا جاتا ہے
تاکہ صاف دکھائی دے
دل کی بات کہنے سے
ڈرتا ہوں
کہیں تم سنجیده نہ ہوجاؤ
وقت کی رفتار اب پھلے جیسی نہ رہی
جب خمار آلوده دوپہر
ختم ہی نہ ہوتی تھی
پھول اور روٹیوں میں فرق کیا ہے
دونوں غذا ہیں
اور سستی نہیں ہیں
کالےچشموں سی وہی دکھتا ہی
جو بغیر چشموں کے
فرق صرف تمیز داری کا ہے
قمیص کے بٹن سب ایک ہی رنگ کے ہوں
تو لباس کتنا پھیکا لگتا ہے
میرے کچھ بٹن میری آنکھیں ہیں
چایے کی پتی جب
کھولتے گرم پانی سے ملتی ہے
تو اسے اپنا رنگ دیتی ہے
اور ہمیں اپنا دم
جنگ کے سمندر میں امن کا جزیرہ
ابھی قایم ہے
شاید ہمارہ جہاز بچ جاے
ترقی یافتہ لوگ بہت تیزی سے
آگے بڑھ رہے ہیں
انہیں ڈر ہے کہیں نیند نہ آجایے
کنویں کا مینڈک
جیسے جیسے اوپر جاتا ہے
دانشمندی میں کمتر ہوتا جاتا ہے
خالی پیٹ کے اندر
جو تکلیف ہے وه بھوک کی نہیں
بوڑھے تیزاب کی ہے
سنتے تھے قیامت کے آنے کا بہت شور
ہم پر ہی شروع ہوگی یہ سوچا کبھی نہ تھا
Sunte thay qayamat ke aane ka bohot shor
Hum par hi shuru hogi, yeh socha kabhi na tha
(24 Sept 2018)
دروازه کھلا رکھنا
شاید میری تحریر ہوا کے جھونکنے سے
تمھارے گھر میں داخل ہونا چاہے
بھیڑ میں شامل لوگ سب حیران
بھول چکے ہیں
راستہ اپنے گھر کا
بازار میں سبزی کی دوکان پر
بک رہا ہے
سستا گھٹیا درد
ضخیم کتابوں میں
دبے ہوےسوکھے پھول
اب اپنی خوشبو بھلا بیٹھے ہیں
پیغمبر ہمیں راستہ دکھاکر
واپس چلاجاتا ہے غار میں
عبادت کیلیے
ساری رات خاموش آسمان میں
تارے ایک دوسرے کو دیکھ کر
مسکراتے ہیں
کبھی نہ آنے والے کا انتظار کرنا
اور کبھی نہ ملنے والی شے کا شوق رکھنا
اب تو یہ عادتیں چھوڑدو
سڑک پر چلتی لڑکیاں
ہنس کر باتیں کرتی ہیں
ایک غیر معیاری شاعر کا
مذاق اڑاتی ہیں
موزے کے سوراخ میں سے
انگوٹھا منہ نکالکر
کچھ کہنا چاہتا ہے
صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے
بارش شاید اب نہ آیے
انتظار کا کوئی اور بہانہ ڈھونڈیں
رات میں کھڑکی کھلی رکھنا
سبز ہوا کا جھونکہ
شاید تمہیں پاگل کردے
کیچڑ میں پڑے پڑے
چاقو کی دھار کند ہوتی جارہی ہے
ورنہ اسنے کیا کیا نہیں کاٹا
چلو اسکا پھل بدل دیتے ہیں
تعارف دیتے وقت لڑکی نے
اپنا ہاتھ آگے بڑھایا
مگر مسکراہٹ نقلی تھی
صبح اور شام میں فرق کرنا
مشکل ہوگیا ہے
آنکھوں کو کب تک
دھوکا دوں
تباہی کے دروازے پر
ہائیکو آکر رک گیا
جیسے اسکا لکھنے والا
سونامی میں ڈوب گیا ہو
جلتے گوشت کی بدبو میں
کبھی کبھی
تازہ پھولوں کی خشبو بھی سنگھائی دی
ضمیر کے بندی
اپنی زندان سے باہر نکل رہے ہیں
انکا کیا بھروسہ
کنویں کے مینڈک تک پھنچنے کے لیے
سرنگ کھودی جارہی ہے
ٹی وی کیمرہ ٹیمیں باہر
تیار کھڑی ہیں
سڑک پر بھوکے بچوں کی قطار ہے
بنٹتا ہوا کھانا بٹورنے کیلیے
ہماری مہنگی کار کا آگے بڑھنا مشکل ہے
سردی اور گرمی کے درمیان کا موسم
پچلھے برس کی گرمیوں کے جیسا ہے
اور اگلے سال کی سردیوں جیسا
تصویر اور اصل میں کیا فرق ہے
اصل کچھ کم قابل یقین ہے
تصویر یقین سے بھی ماورا ہے
کبھی ہم بھی قلم کے مزدور تھے
شکر ہے اب آزاد ہیں
کمپیوٹر کے غلام ہیں
سفید جھوٹ کیا ہوتا ہے
کیا وه گدلے یا کالےجھوٹ سے
زیاده بھاری ہوتا ہے
پرانے وقتوں میں ماحول زیاده صاف تھا
اب گندگی پر چمکتا پالش کیا جاتا ہے
تاکہ صاف دکھائی دے
دل کی بات کہنے سے
ڈرتا ہوں
کہیں تم سنجیده نہ ہوجاؤ
وقت کی رفتار اب پھلے جیسی نہ رہی
جب خمار آلوده دوپہر
ختم ہی نہ ہوتی تھی
پھول اور روٹیوں میں فرق کیا ہے
دونوں غذا ہیں
اور سستی نہیں ہیں
کالےچشموں سی وہی دکھتا ہی
جو بغیر چشموں کے
فرق صرف تمیز داری کا ہے
قمیص کے بٹن سب ایک ہی رنگ کے ہوں
تو لباس کتنا پھیکا لگتا ہے
میرے کچھ بٹن میری آنکھیں ہیں
چایے کی پتی جب
کھولتے گرم پانی سے ملتی ہے
تو اسے اپنا رنگ دیتی ہے
اور ہمیں اپنا دم
جنگ کے سمندر میں امن کا جزیرہ
ابھی قایم ہے
شاید ہمارہ جہاز بچ جاے
ترقی یافتہ لوگ بہت تیزی سے
آگے بڑھ رہے ہیں
انہیں ڈر ہے کہیں نیند نہ آجایے
کنویں کا مینڈک
جیسے جیسے اوپر جاتا ہے
دانشمندی میں کمتر ہوتا جاتا ہے
کاش تمہیں دکھا سکتا
جب تم تنہا ہو یا تاریکی میں
تمہارے اندر کی اپنی
حیرت انگیز روشنی
(حافظ شیرازی)
جب تم تنہا ہو یا تاریکی میں
تمہارے اندر کی اپنی
حیرت انگیز روشنی
(حافظ شیرازی)
خالی پیٹ کے اندر
جو تکلیف ہے وه بھوک کی نہیں
بوڑھے تیزاب کی ہے
سنتے تھے قیامت کے آنے کا بہت شور
ہم پر ہی شروع ہوگی یہ سوچا کبھی نہ تھا
Sunte thay qayamat ke aane ka bohot shor
Hum par hi shuru hogi, yeh socha kabhi na tha
(24 Sept 2018)